Wednesday 16 August 2023

مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

 مِری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک

دکانِ دل میں نوادر سجے ہوئے ہیں مگر

یہ وہ جگہ ہے کہ آتے نہیں لُٹیرے تک

مجھے قبول ہیں یہ گردشیں تہِ دل سے

رہیں جو صرف تِرے بازوؤں کے گھیرے تک

سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو

وہ خواب میں تو پہنچ جائے گا بسیرے تک

چمک دمک میں دکھائی نہیں دئیے آنسو

اگرچہ میں نے یہ نگ راہ میں بکھیرے تک

کہاں ہیں اب وہ مسافر نواز بہتیرے

اٹھا کے لے گئے خانہ بدوش ڈیرے تک

تھکا ہوا ہوں مگر اس قدر نہیں کہ شعور

لگا سکوں نہ اب اس کی گلی کے پھیرے تک


انور شعور

No comments:

Post a Comment