Monday 14 August 2023

تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی

 تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی

اپنے گھر جیسی تو صحرا میں بھی تنہائی نہ تھی 

اب تو رشک آتا ہے خود اپنے ہی جملوں پر ہمیں

اس سے پہلے تھی مگر یہ شانِ گویائی نہ تھی 

اب مجھے کیوں اپنے مستقبل کا آتا ہے خیال

آج تک شاید مِرے ہمراہ دانائی نہ تھی 

تجربوں کے واسطے کچھ لغزشوں کی چُھوٹ ہے

اب میں سمجھا کیوں مجھے ہر بات سمجھائی نہ تھی 

عالمِ حیرت میں گزرے ہیں وہاں سے بھی جہاں

زندگی اپنی طرح بے عکس و بے آئینہ تھی 

وہ کہاں ہے منظروں میں ڈھونڈتے ہو تم جسے

گھر سے کیوں نکلے تھے جب نظروں میں رعنائی نہ تھی 

تجھ سے ملنے تک نہ تھا خود اعتمادی کا پتا

اور  کچھ اپنی طبیعت نے جِلا پائی نہ تھی 

ویسے تو اب تک بنائیں کتنی تصویریں رباب

شوق کی حد تک مگر رنگوں میں گہرائی نہ تھی


رباب رشیدی

No comments:

Post a Comment