تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی
اپنے گھر جیسی تو صحرا میں بھی تنہائی نہ تھی
اب تو رشک آتا ہے خود اپنے ہی جملوں پر ہمیں
اس سے پہلے تھی مگر یہ شانِ گویائی نہ تھی
اب مجھے کیوں اپنے مستقبل کا آتا ہے خیال
آج تک شاید مِرے ہمراہ دانائی نہ تھی
تجربوں کے واسطے کچھ لغزشوں کی چُھوٹ ہے
اب میں سمجھا کیوں مجھے ہر بات سمجھائی نہ تھی
عالمِ حیرت میں گزرے ہیں وہاں سے بھی جہاں
زندگی اپنی طرح بے عکس و بے آئینہ تھی
وہ کہاں ہے منظروں میں ڈھونڈتے ہو تم جسے
گھر سے کیوں نکلے تھے جب نظروں میں رعنائی نہ تھی
تجھ سے ملنے تک نہ تھا خود اعتمادی کا پتا
اور کچھ اپنی طبیعت نے جِلا پائی نہ تھی
ویسے تو اب تک بنائیں کتنی تصویریں رباب
شوق کی حد تک مگر رنگوں میں گہرائی نہ تھی
رباب رشیدی
No comments:
Post a Comment