نیند کی آغوش میں چھپ کر سمٹنا خواب سا
اور باہوں میں کسی کا وہ مچلنا خواب سا
جب دہلتی دھوپ میں جلنے لگا سایہ مِرا
چھاؤں میں آنچل کے لے کر، تیرا چلنا خواب سا
ظلمتوں سے ہو چلی تھی جب شناسائی مِری
روشنی کی اک کرن کا پھر تڑپنا خواب سا
نرم ریتوں پر پڑی سیپی کی مانند کون تھا
ایک پیاسی بوند کو اکثر ترسنا خواب سا
سوچتے رہنا یہ پہروں موند کر آنکھیں کبھی
کن خیالوں میں بھٹکنا، کس سے ملنا خواب سا
جانے تم بھی کس سفر میں کھو گئے آصف حسن
ڈھونڈنا خود ہی دِشائیں، پھر بھٹکنا خواب سا
آصف ثاقب
No comments:
Post a Comment