کبھی رستے کو روتے ہیں کبھی مشکل کو روتے ہیں
جو ناکام سفر ہوتے ہیں وہ منزل کو روتے ہیں
ذرا انداز تو دیکھے کوئی ان دل فگاروں کا
پلٹتے ہیں ورق ماضی کا مستقبل کو روتے ہیں
خدایا! کس قدر نادان ہیں یہ کشتیاں والے
سمندر پر نظر رکھتے ہیں اور ساحل کو روتے ہیں
بدل دیں انقلابِ وقت نے قدریں زمانے کی
سجاتے تھے جو خود محفل وہ اب محفل کو روتے ہیں
گزرتی ہے اسی عالم میں رہبر زندگی اپنی
کبھی دل ہم کو روتا ہے کبھی ہم دل کو روتے ہیں
رہبر جونپوری
No comments:
Post a Comment