یہ زندگی کے ماہ و سال، حال میں گزر گئے
جو حال میں نہیں تھے، وہ زوال میں گزر گئے
جو خار تھے وہ پھول ہیں جو خواب تھے وہ دھول ہیں
جلال میں گزر گئے، جمال میں گزر گئے
نگاہ کی کجی تھی، اور دماغ کا فتور تھا
جو دیکھنےمیں پست تھے کمال میں گزر گئے
جواب میرے پاس تھا، میں آپ لاجواب تھا
ستم کہ میرے سارے پل سوال میں گزر گئے
بچے کُھچے یہ شعر ہیں جو شاملِ کلام ہیں
جو حاصلِ کلام تھے، خیال میں گزر گئے
راشد ڈوگر
No comments:
Post a Comment