Friday 18 August 2023

کھلے سمندر کی اور کب سے

 خواب زادی


کُھلے سمندر کی اور کب سے

یہ عقبی کھڑکی کُھلی ہوئی ہے

نگاہ کی حد سے پرے تک 

یہ جھلملاتا سا نیلگوئی حسیں سمندر بِچھا ہوا ہے

کبھی کبھی کوئی کشتی یاں سے گزرتی ہے تو 

وہ کشتی والے عجب مسرت سے دیکھتے ہیں

میں جانتا ہوں وہ سوچتے ہیں 

سمندروں کے حسین ساحل پہ رہنے والوں کے دل 

سمندر کے پانیوں سے وسیع ہوں گے

انہیں خبر ہی نہیں ہے شاید 

کہ ساحلوں پہ قیام کرتے دلوں کے اندر 

بہت اداسی بھری ہوئی ہے

میں کھڑکی کھولے 

کُھلے سمندر میں ڈُوبتی ہوئی اُداس شاموں کو دیکھتا ہوں تو 

ایسے لگتا ہے جیسے یکدم 

یہ سب اندھیرے مِرے بدن میں اُتر رہے ہوں

میں بھیگی آنکھوں سے اک اچٹتی نگاہ ڈالے 

اُداس منظر کو دیکھتا ہوں

نڈھال ہوتے ہوئے بدن کو 

کسی طرح سے گھسیٹ کر 

اپنے بیڈ پہ لاتے میں سوچتا ہوں

مِری طرح سے وہ خواب زادی بھی 

اب سمندر کے ساحلوں پر بھٹکتی ہو گی

اور اپنی حالت پہ ہنستی ہو گی


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment