دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو! کیا ہو گا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آ کر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
برقِ تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں
ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چُھپ کر روتے ہیں
صرف میرے حصے میں تلچھٹ اس کو صراحی بھر کے شراب
تشنہ لبی کو دیکھ کے مے خانے کے ساغر روتے ہیں
انجم! یادوں کے میلے میں گُھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بُھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں
انجم لکھنوی
No comments:
Post a Comment