Sunday, 20 August 2023

خواب آنکھوں سے جو ترتیل ہوا کرتے ہیں

 خواب آنکھوں سے جو ترتیل ہوا کرتے ہیں

اک صحیفے کی وہ تمثیل ہوا کرتے ہیں

گاؤں مدغم ہوں جو شہروں میں تو میٹھے چشمے

ایک دن زہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں

بعض اوقات مسافر کو شبِ ظلمت میں

راہ کے جگنو بھی قندیل ہوا کرتے ہیں

بات پردیس نہیں پاس سے کرتا ہے لہو

چاہے ہم دُور کئی میل ہوا کرتے ہیں

یہ جو خاموش نظر آتے ہیں درویش سے لوگ

علم و عرفان کی زنبیل ہوا کرتے ہیں

با وضو ہوتا ہے جس وقت تخیل اپنا

شعر وجدان پہ تنزیل ہوا کرتے ہیں

اُن کو ازبر ہیں زمانے کے جرائم سارے

اپنی فطرت میں جو قابیل ہوا کرتے ہیں

آسمانوں میں کہاں اپنا ٹھکانہ مشتاق

خاک ہیں خاک میں تحلیل ہوا کرتے ہیں


حبیب الرحمٰن مشتاق

حبیب الرحمان مشتاق

No comments:

Post a Comment