خواب آنکھوں سے جو ترتیل ہوا کرتے ہیں
اک صحیفے کی وہ تمثیل ہوا کرتے ہیں
گاؤں مدغم ہوں جو شہروں میں تو میٹھے چشمے
ایک دن زہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
بعض اوقات مسافر کو شبِ ظلمت میں
راہ کے جگنو بھی قندیل ہوا کرتے ہیں
بات پردیس نہیں پاس سے کرتا ہے لہو
چاہے ہم دُور کئی میل ہوا کرتے ہیں
یہ جو خاموش نظر آتے ہیں درویش سے لوگ
علم و عرفان کی زنبیل ہوا کرتے ہیں
با وضو ہوتا ہے جس وقت تخیل اپنا
شعر وجدان پہ تنزیل ہوا کرتے ہیں
اُن کو ازبر ہیں زمانے کے جرائم سارے
اپنی فطرت میں جو قابیل ہوا کرتے ہیں
آسمانوں میں کہاں اپنا ٹھکانہ مشتاق
خاک ہیں خاک میں تحلیل ہوا کرتے ہیں
حبیب الرحمٰن مشتاق
حبیب الرحمان مشتاق
No comments:
Post a Comment