جیب و گریباں سی لینے میں دیوانہ مصروف ہوا
ان کی گلی میں آنا جانا مدت سے موقوف ہوا
ہاتھ کٹے تھے، ہونٹ سلے تھے سوچ بھی اب پتھرائی ہے
پہلے بدن مفلوج ہوا تھا، ذہن بھی اب ماؤف ہوا
کومل کرنیں پیتے رہنا کونپل کی معراج ہوئی
رنگوں کا طوفان تھا کیسے غُنچوں میں ملفوف ہوا
شہرت کا یہ راز ہمیں تو آج کہیں معلوم ہوا
زر کا زینہ چڑھنے والا نگر نگر معروف ہوا
ذکر تھا جس میں اپنے لہو کی سرمستی کے موسم کا
وہ اک رنگیں باب تھا جانے زیست سے کیوں محذوف ہوا
سید نصیر شاہ
No comments:
Post a Comment