Wednesday 16 August 2023

بھلا دئیے جاؤ گے تم جیسے

 بُھلا دئیے جاؤ گے تم


بُھلا دئیے جاؤ گے تم

جیسے 

کبھی گزرے ہوئے زمانے میں

تم تھے ہی نہیں

بُھلا دئیے جاؤ گے تم

جیسے کوئی پرندہ 

کہیں مر کر گر جاتا ہے

جیسے کوئی ویران عبادت گاہ ہو

جیسے بُھولی بسری اجنبی محبت ہو

یا 

جیسے رات کے اندھیرے میں 

گلاب کا کوئی پھول

تم بھی ایسے ہی بُھلا دئیے جاؤ گے

میں راستے میں ہوں جہاں 

میرے بعد آنے والا اپنا قدم

میرے قدم پر رکھے گا

جہاں میرے بعد آنے والا شخص

اپنا عقیدہ میرے عقیدے سے لکھے گا

یا پھر میرے بعد آنے والا

وہ شخص ہو گا جو

اپنی فطرت کے جملے ترتیب دے کر

زندگی کی کہانی میں داخل ہو گا

یا پھر وہ

بعد میں آنے والوں کے لیے 

شاعری کا اثر چھوڑ جائے گا

اور ایک وہم بھی

بُھلا دئیے جاؤ گے تم

جیسے تم کبھی تھے ہی نہیں

جیسے تم کبھی ایک شخص نہ تھے

جیسے تم کبھی ایک زندہ وجود نہ تھے

ایسے تم بُھلا دئیے جاؤ گے

میں اپنی بصیرت سے بنے

راستے کا مسافر ہوں

کبھی میں کہانی کو

اپنی زندگی کا رنگ دے دوں گا

اور کبھی خیالات مجھ پر حکمرانی کریں گے

اور میں ان پر

میں اپنے خیالات کی شکل ہوں

اور 

وہ، وجود سے آزاد

لیکن جو بھی میں کہوں گا 

وہ پہلے بھی کہا جا چکا ہو گا

آنے والا کل 

مجھے گزرنے والا کل بنا دے گا

میں یادوں کی بازگشت 

کا بادشاہ ہوں

میرا کوئی تخت نہیں سوائے 

حاشیوں کے

اور یہ راستہ ہی سچ ہے

شاید پہلے آنے والے

کسی چیز کی صفت کو بُھول گئے تھے

اور اب میں اپنی یادداشت اور حس سے

اس کی نمو کو

حرکت دے رہا ہوں

بُھلا دئیے جاؤ گے تم

جیسے تم تھے ہی نہیں کبھی

جیسے کہیں

تمہارا کوئی نشان اور خبر نہ تھی

ایسے بھلا دئیے جاؤ گے تم

میں اس راستے پر چل رہا ہوں 

جہاں میرے بعد آنے والا

میرے قدموں پر چلے گا

اور میرے نظریے کی پیروی کرے گا

وہ بھی آ کر 

اجڑے گلستان کی یاد میں شعر لکھے گا

اس گھر کے سامنے

جو کل کے انسانوں سے آزاد اور خالی ہو گا

جو میرے بکھرے ہوئے

مستقبل سے  خالی ہو گا

جو میرے وجود اور عدم سے خالی ہو گا

میرے جنت جیسے وطن سے خالی ہو گا

جو میرے کنایات

اور میری زبان سے خالی ہو گا

اور میں دیکھ رہا ہوں

کہ میں اس وقت

مکمل زندہ اور آزاد ہو جاؤں گا 

جب میں 

بُھلا دیا جاؤں گا 


محمود درویش 

No comments:

Post a Comment