کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
مگر محشر کا دن ہے اپنے بیگانے بہت سے ہیں
بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو
تِری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دھری رہ جائے گی پابندیٔ زِنداں جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھا دو کہ دیوانے بہت سے ہیں
بس اب سو جاؤ نیند آنکھوں میں ہے کل پھر سنائیں گے
ذرا سی رہ گئی ہے رات، افسانے بہت سے ہیں
تمہیں کس نے بُلایا میکشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ میخانے بہت سے ہیں
بڑی قربانیوں کے بعد رہنا باغ میں ہو گا
ابھی تو آشیاں بجلی سے جلوانے بہت سے ہیں
لکھی ہے خاک اڑانی ہی اگر اپنے مقدر میں
تِرے کُوچے پہ کیا موقوف ویرانے بہت سے ہیں
نہ رو اے شمع موجودہ پتنگوں کی مصیبت پر
ابھی محفل سے باہر تیرے پروانے بہت سے ہیں
مِرے کہنے سے ہو گی ترکِ رسم و راہ غیروں سے
بجا ہے آپ نے کہنے مِرے مانے بہت سے ہیں
قمر اللہ ساتھ ایمان کے منزل پہ پہنچا دے
حرم کی راہ میں سنتے ہیں بت خانے بہت سے ہیں
قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment