کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی
پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے
ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی
ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا
برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی
آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی
گلشن کے دلفریب نظاروں کی زندگی
ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر
مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی
کس درجہ خوشگوار ہے تنہائیوں میں آج
سیفی چمکتے چاند ستاروں کی زندگی
سیفی سرونجی
No comments:
Post a Comment