تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر
وفا کو آ ہی گئی نیند رات ڈھلنے پر
جو سب کا دوست تھا ہر انجمن کی رونق تھا
کل اس کی لاش ملی اس کے گھر کے ملبے پر
ہر ایک دوست کے چہرے کو غور سے دیکھا
فقط خلوص کا غازہ تھا سب کے چہرے پر
وہ ذوقِ فن ہو کہ شاخِ چمن کہ خاکِ وطن
ہر اک کا حق ہے مِرے خوں کے قطرے قطرے پر
چمن میں یوں تو تھے کچھ اور آشیاں لیکن
گری جو برق تو میرے ہی آشیانے پر
حقیقتیں نظر آئیں تو کس طرح ان کو
تعصبات کی عینک ہے جن کے چہرے پر
کرم مجھی پہ تھا سب باغبان و گلچیں کا
کسی نے قید کیا، اور کسی نے نوچے پر
یہ دشتِ حُزن ہے کرب و بلا کا صحرا ہے
چلے گا کون یہاں اب وفا کے رستے پر
وفا ملک پوری
No comments:
Post a Comment