لقمہ ذرا حرام کا ٹھونسا نہ پیٹ میں
اس نے ہوس تو ڈالنی چاہی پلیٹ میں
اس کے لبوں کا میٹھا مِرے منہ میں بھر گیا
اتنی نہیں مٹھاس ملی چاکلیٹ میں
میں آگ ہوں جو مجھ کو سمجھتا ہے آبِجو
آئے گا ایک روز وہ میری لپیٹ میں
پرکھوں کی یادگار ہے سونے سا ظرف یہ
اور مانگتے ہو تم اسے پیتل کے ریٹ میں
اس کو کھنڈر نہ جان یہی تھا کبھی محل
چمگادڑیں ہو دیکھتے جس خستہ گیٹ میں
وہ ہٹ گیا رسولِ محبت کی راہ سے
انسانیت کا قتل جو کرتا ہے ہیٹ میں
کاشف ظریف
No comments:
Post a Comment