تِرے درختوں کی ٹہنیوں پر بہار اترے
تِری گزرگاہیں نیک راہوں کی منزلیں ہوں
مِرا زمانہ نئے نئے موسموں کی خوشبو
تِرے شب و روز کی مہک ہو
زمین پر جب بھی رات پھیلے
کرن جو ظلمت کو روشنی دے تِری کرن ہو
پرندے اڑتے ہوئے پرندے
ہزار سمتوں سے تیرے باغوں میں چہچہائیں
وہ رات جس کی سحر نہیں ہے
وہ تیرے شہروں سے تیرے قصبوں سے دُور گزرے
وہ ہاتھ جو عظمتوں کے ہجے مٹا رہا ہے
وہ ہاتھ لوح و قلم کے شجرے سے ٹوٹ جائے
کلس پہ لفظوں کے پھول برسیں
تِری فصیلوں کے برج دنیا میں جگمگائیں
اکیلے پن کی سزا میں دن کاٹتے ہزاروں
تِری زیارت گہوں کی بخشش سے تازہ دم ہوں
تِرے مقدر کی بادشاہت زمیں پہ نکھرے
نئے زمانے کی ابتداء تیرے نام سے ہو
خوشی کے چہرے پہ وصل کا ابر تیر جائے
تمام دنیا میں تذکرے تیرے پھیل جائیں
جیلانی کامران
No comments:
Post a Comment