مریخ زادوں کو خبر پہنچے
زنان زہرہ کی خواب گاہوں میں کھلنے والے ضیا کے دفتر سمٹ رہے ہیں
کہ ان کے رحموں میں سبز رنگت کی زندگی کو جگانے والا کوئی نہیں ہے
وہ زہرہ زادی جو نوری سالوں کی اک صدی سے
حمل کی چاہ میں پگھل رہی ہے، وہ منتظر ہے کہ کوئی آئے
اور اس کی سُوکھے شکم میں اپنی بقا کے خلیوں کا سحر پھونکے
تو اس کے سینے سے روشنی کا وجود پُھوٹے
اور اس سیارے پہ بسنے والوں کے بادشاہ کا جنم ہو ممکن
مگر پروہت یہ کہہ چکے ہیں
کہ زہرہ زادوں کی ناف نیچے جو زندگی کا ہرا شجر تھا وہ کٹ چکا ہے
وہ شب کا دریا نمو کے خلیوں کو لانے والا، پلٹ چکا ہے
کہ زنان زہرہ کی کھیتیوں میں اب اس سیارے کا کوئی باسی نہ پل سکے گا
تو مریخ زادوں کو خبر پہنچے کہ
زہرہ زادے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے پیڑوں کو کاٹ بیٹھے
تو کوئی آئے مریخ زادہ
جو زندگی کے سنہرے چھلے اپنے نیلے بدن پہ ٹانکے
زہرہ زادی کے جوف سینہ سے بقاء کی ٹھنڈی نہر نکالے
چاند جن میں، ستارے بکھریں، کہکشائیں بھی حاملہ ہوں
کہ زندگی کو چلائے کوئی
زہرہ زادوں کا بادشاہ ہو، بھلے وہ اہلِ مریخ ہی ہو
مریم مجید
No comments:
Post a Comment