صیاد کہہ رہا ہے رہائی نہ دیں گے ہم
اپنی ہے ضد قفس میں دکھائی نہ دیں گے ہم
اب جرم عاشقی پہ صفائی نہ دیں گے ہم
جاتی ہے جان جائے دہائی نہ دیں گے ہم
ہم داستان عشق ہیں ہم کو یہیں سنو
محشر کے شور میں تو سنائی نہ دیں گے ہم
اب بھی جو متحد نہ ہوئے ہم تو دیکھنا
نقشے پہ کل جہاں کے دکھائی نہ دیں گے ہم
دانش ہیں ہم چراغ سحر کی طرح یہاں
ہوتے ہی صبح تم کو دکھائی نہ دیں گے ہم
شمیم دانش
No comments:
Post a Comment