جب سے تیرا نام میری نظم کا مطلع بنا
تب سے میرا نام ہے ہر شعر کا مقطع بنا
میں خیالوں کے سمندر میں یونہی ڈوبا رہا
لب پہ جب بھی نام آیا، اک نیا مصرع بنا
ہیں بچھے کانٹے تحفظ کو تمہارے چار سُو
مل سکیں دل کھول کر ایسا کوئی موقع بنا
اے خدا! محفوظ رکھ تا دیر وہ سایہ فِگن
جس کے دم سے آج میں ہوں مالک مزرع بنا
کیوں یہ تریا راج پھر بازار میں ہے برہنہ
جب کہ ہے ان کے لیے مخصوص اک بُرقع بنا
مرتضٰی کیسے کرو گے دید اپنے یار کی
چار سُو اغیار کا، غیروں کا ہے مجمع بنا
مرتضیٰ آخوندی
No comments:
Post a Comment