ساری عمر کی ہمدم ہے شاداب رُتوں کی یاد
برسوں کے بے رحم سفر میں کچھ لمحوں کی یاد
کیسا زادِ راہ مسافر لے کے گیا ہے ساتھ
اک کھڑکی سے جھانکنے والی دو آنکھوں کی یاد
جیون کی اندھیر مسافت میں دَم ساز رفیق
ان ہونٹوں سے صادر ہوتی کچھ کرنوں کی یاد
ریشم ریشم رستے ہوں تو چلتے ہیں مد ہوش
چوٹ لگے تو آ جاتی ہے پھر ماؤں کی یاد
جن میں کاشت کئے تھے ہم نے ہیرے اپنے اشکوں کے
اپنی تو جاگیر رہی ہے ان گلیوں کی یاد
سید نصیر شاہ
No comments:
Post a Comment