بُھول چُکا ہُوں بُرا ہے کیا اور اچھا کیا
غور سے دیکھو، میرا چہرہ بدلا کیا؟
لکھتے رہتے ہو برگد، پیپل، نظمیں
یاد ہے تم کو اب تک گاؤں کا رستہ کیا؟
یہ تو ہے اس دور کی انسانی فطرت
باہر سے کیا ہے، اندر سے نکلا کیا
جب ظالم کو ظالم کہنا جُرم ہُوا
میں اس کو مظلوم نہیں تو کہتا کیا؟
غُربت کے لمبے دن اور چھوٹی راتیں
اس موسم میں تیرا میرا رشتہ کیا؟
شعیب رضا فاطمی
No comments:
Post a Comment