وہ
وہ تو میری ادھیڑ عمر شاخوں کے خوفناک اندھیروں کے درمیان
ایک ناجائز خواب کا بے بنیاد گھونسلہ ہے
میری درویشانہ پیشانی پر رقاصہ کے پاؤں کے نکتے جیسا ایک نقش ہے
وہ ایک سلگتا ہوا چاند ہے میری انجام سے محروم جامنی رات کا
وہ میرے ادھیڑ عمر سینے میں
چھپ چھپ کر مہکتی غیر مہذب کثیف آگ ہے
اس کا نام ایک ایسا شہد ہے جو سفید سنگ مرمر کے تپتے مینار پر
دن رات برفاب کی طرح قطرہ قطرہ گرتا ہے
وہ میرے سنسار میں بہتی ہوئی ایک اکیلی ندی ہے
جو میرے سوا کسی اور کو دکھائی نہیں دیتی
وہ ایک عورت روپی مندر ہے میرے ویرانوں میں
وہ ایک برہنہ بت ہے برسات میں بھیگتا دن رات
وہ کالی رات میں دہکتی آسمانی آگ ہے
وہ زیر زمین ایک لو ہے
وہ پیرہنوں تلے مستور ایک یگوں لمبی پر اسرار کتھا ہے
اس کا چہرہ جھلمل کرتی کائنات ہے
اس کے نینوں میں برہمانڈ کا سارا حسن دیکھائی دیتا ہے
وہ دنیا کا سب سے حسین ساز ہے
اس کے مضراب کے لمس سے ہوا کے ان دیکھے تار جھنجھنانے لگتے ہیں۔
کرنوں کا بنا ہوا ساز بج اٹھتا ہے
لیکن وہ ادھیڑ عمر مہذب سینے میں
چھپ چھپ کر دہکتی فحش آگ ہے
(ساہتیہ اکیڈمی کی انعام یافتہ نظمیں اندھیرے میں سلگتے حروف)
پنجابی شاعری: سرجیت پاتر
اردو ترجمہ: بلراج کومل
No comments:
Post a Comment