Saturday, 19 August 2023

وہ میرے سنسار میں بہتی ہوئی ایک اکیلی ندی ہے

 وہ

وہ تو میری ادھیڑ عمر شاخوں کے خوفناک اندھیروں کے درمیان

ایک ناجائز خواب کا بے بنیاد گھونسلہ ہے

میری درویشانہ پیشانی پر رقاصہ کے پاؤں کے نکتے جیسا ایک نقش ہے

وہ ایک سلگتا ہوا چاند ہے میری انجام سے محروم جامنی رات کا

وہ میرے ادھیڑ عمر سینے میں

چھپ چھپ کر مہکتی غیر مہذب کثیف آگ ہے

اس کا نام ایک ایسا شہد ہے جو سفید سنگ مرمر کے تپتے مینار پر

دن رات برفاب کی طرح قطرہ قطرہ  گرتا ہے

وہ میرے سنسار میں بہتی ہوئی ایک اکیلی ندی ہے

جو میرے سوا کسی اور کو دکھائی نہیں دیتی

وہ ایک عورت روپی مندر ہے میرے ویرانوں میں

وہ ایک برہنہ بت ہے برسات میں بھیگتا دن رات

وہ کالی رات میں دہکتی آسمانی آگ ہے

وہ زیر زمین ایک لو  ہے

وہ پیرہنوں تلے مستور ایک یگوں لمبی پر اسرار کتھا ہے

اس کا چہرہ جھلمل کرتی کائنات ہے

اس کے نینوں میں برہمانڈ کا سارا حسن دیکھائی دیتا ہے

وہ دنیا کا سب سے حسین ساز ہے

اس کے مضراب کے لمس سے ہوا کے ان دیکھے تار جھنجھنانے لگتے ہیں۔

کرنوں کا بنا ہوا ساز بج اٹھتا ہے

لیکن وہ ادھیڑ عمر مہذب سینے میں 

چھپ چھپ کر دہکتی فحش آگ ہے


(ساہتیہ اکیڈمی کی انعام یافتہ نظمیں اندھیرے میں سلگتے حروف)

پنجابی شاعری: سرجیت پاتر

اردو ترجمہ: بلراج کومل

No comments:

Post a Comment