Thursday 17 August 2023

حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں

 حُسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں

یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں

زُلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر

میں تِرے حلقۂ آداب کا محصور نہیں

دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ

میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں

دامنِ دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز

تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں

چند جام اور کہ مے خانۂ جاں تک پہنچیں

ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں

سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح

دل بے باک بھی محفل کے تئیں اور نہیں

ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ

سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں

سب رسن بستۂ آزادیٔ ایماں ہوئے

اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں

اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں

دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں


حسن عابد

No comments:

Post a Comment