گڑھے مردے اکھاڑو گے، عفونت پھیل جائے گی
جو ماضی کو کریدو گے، نحوست پھیل جائے گی
جفا کا سوچنا بھی مت، وگرنہ اگلی نسلوں میں
محبت کی امانت میں، خیانت پھیل جائے گی
جو ماضی تھا وہ ماضی تھا، ابھی تو سب تمہارا ہے
یقیں کر لو، یقیں جانو محبت پھیل جائے گی
چلو اب حال کو مل کر محبت سے سجاتے ہیں
اگر ماضی کریدیں گے عداوت پھیل جائے گی
سخنور ہوں، سخن کو ترک کرنا موت ہے میری
بس اتنا مان لو گے تو مسرت پھیل جائے گی
سنو! تم بیٹیوں کو علم سے آراستہ کرنا
انہیں انپڑھ جو رکھو گے، جہالت پھیل جائے گی
محبت میں شکایت کی روایت ہی نہیں، واصل
روایت ڈال دو گے تو شکایت پھیل جائے گی
عتیق واصل
No comments:
Post a Comment