نغمۂ یومِ آزادی
میں تو کیا نام نہ باقی مِرا آئندہ رہے
تُو مِری جان مگر زندہ و پائندہ رہے
تیری ٹھوڑی پہ یہ تارا، تِرے ماتھے پہ یہ چاند
تا قیامت یونہی رخشندہ و تابندہ رہے
حق ادا کر گئے جینے کا حقیقت میں وہی
ایک دن تجھ پہ جو مرنے کے لیے زندہ رہے
قلبِ پُرخوں کے دِیے، دیدۂ پُرنم کے چراغ
بزمِ جاناں میں جلاؤ کہ درخشندہ رہے
پیار سچا تو اُسی کا ہے، کسی حال میں ہو
آپ اپنا ہی نہیں تیرا نمائندہ رہے
سروِ بے فیض وہ سرکش ہے چمن میں رحمان
دیس میں رہ کے جو پردیس کا باشندہ رہے
رحمٰن کیانی
عبدالرحمٰن کیانی
No comments:
Post a Comment