ٹُھکرائی یہ کہ کر اس نے محبت سانولے رنگ کی
میں دیوی حُسن کی، تُو مُورت سانولے رنگ کی
اُس کے جیسے حسین نے جب دھوکہ دیا اُسے
بتاتا رہتا ہے اب دُنیا کو قیمت سانولے رنگ کی
سانولے کو جو آیا پسند نہیں تھا سانولے رنگ کا
حسین کبھی بنتے نہیں قسمت سانولے رنگ کی
تیرے حُسن سے اُلجھتے ہیں بے چین ہو کر
گھر کے آئینوں کو ہے عادت سانولے رنگ کی
حسین لوگوں سے نہیں بنتی اس لیے شاید
اُداسی کو میسر ہے سہولت سانولے رنگ کی
موضوعِ محفل رہا کل میرا ذکر دیر تلک
میں ہی نہ کر سکا وضاحت سانولے رنگ کی
اُڑایا مذاق میرا سارے شہر کے حسینوں نے
مُقدمہ گورے رنگ کا عدالت سانولے رنگ کی
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment