نمو کی لگن میں
میں بارانی رقبہ ہوں
بارہ مہینے مِرے خُشک ہونٹوں پہ
اُڑتے ہوئے بادلوں کے بُلاروں سے اُٹھتی ہوئی دُھول
کا رقص ہے
دائیں بائیں دھڑکتی ہوئی چھاؤں میں
آنے والے دنوں کی ٹھٹھرتی ہوئی دُھوپ کا عکس ہے
ہل چلاتے ہوئے
اُن مبارک پرانوں سے لپٹی ہوئی خاک میری
ازل سے ابد تک مہکتی رہے گی
مِرا ذکر چُولہوں پہ تازہ رہے گا
توجہ کے وہموں میں اُلجھی ہوئی گُنک چوپال میں
میرے قصے پرانے دُہرانے سے چلتے رہیں گے
یہی خاک لوحِ زمانہ پہ نقشِ دوامِ فنا سے اُلجھتی رہے گی
نمو زاد ریشے اُگاتے ہوئے
شاخچوں کے جھروکے سجاتی رہے گی
سعادت بھرے طاقچوں میں یونہی
لو اُٹھاتی رہے گی
ہواؤں کے رتھ پر لہکتے ہوئے پانیوں کی لگن میں
لپکتی رہے گی
مِری گود سے رس لُٹاتی ہوئی
زندگی پیاس میں بھی چھلکتی رہے گی
خمار میرزادہ
No comments:
Post a Comment