تو اس نے کہا یہ جام دیکھ
مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ
یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی
موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی
اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی
کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی
ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی
کہ جیسے تیرے یونٹ کی کلی کلی عرق سے لدی ہوئی
تو دیکھ پھر یہ جام تیرے ہونٹ پر لدے ہوئے عرق کا رقیب ہے
تو دیکھ پھر یہ شام جس کی چاندنی میں تو میرے قریب ہے
اور دیکھ خیمہ گاہ میں چراغ ہے بجھا ہوا
بجھا ہوا کہ تیری روشنی کی تاب سے ڈرا ہوا
وہ دیکھ کمخواب کا بچھونا کچھ جلا ہوا
کہ تیری ساق عنبریں سے جھلس کے وہ پڑا ہوا
یہ دشت کی عروس گاہ جو تیرے واسطے
زمانے بھر کے آذروں نے مل کے ہے گھڑی ہوئی
اسی عروس گاہ میں پلنگ تلے سیاہ پوش نعش اک دھری ہوئی
کسی جری نے سیم کے پہاڑ سے پرے کہیں
تیرے نام سے جو ایک ندی بہائی تھی
اور اس ندی میں چوب صندلیں کے چوکھٹے میں قید
ایک جل پری کی آنکھ سے بنے ہوئے نگینے میں جو شام بھجوائی تھی
وہ حبش کے سیاہ فام زنگیوں کے ہاتھ میں جو تھال تھے
ان میں زر کے ڈھیر سے وہ جام اٹھا
جو مئے ارغوان سے بھرا ہوا
بام پر چڑھی ہوئی ندی سے تو وہ شام اٹھا
پیرہن کی ڈوریوں سے ہجر کی وہ گرہ کھول
گرہ کھول اور جام میں بھری ہوئی
بام پر چڑھی ہوئی ندی میں میرے ساتھ آ
ساتھ آ کہ اس ندی کے دوسرے سرے پہ جو نشست ہے
ہمارا باب اولیں ہے، خلد ہے بہشت ہے
مریم مجید
No comments:
Post a Comment