شہر انکار میں اقرار کے سکے کی کھنکتی رہی لذت جاناں
رفتہ رفتہ ہوئی کافور وہ ہر بات پہ تکرار کی لذت جاناں
خوب روتا تھا وہ معصوم کبھی مان بھی جاتا تھا کھلونے لے کر
اس کو بہلانا تھا لازم کہ تھی بازار میں ہر رنگ کی راحت جاناں
کیا وہ تہذیب تھی خود دار جو مٹی میں پڑی یوں ہی تڑپتی ہی ملی
کیا بہ صد حسن طلب وقت کی دہلیز پہ بیٹھی ہے قیامت جاناں
میں نے کب جامہ فروشی کے عوض صوفی و صافی کا لقب چاہا تھا
شہرفاقہ میں ہوئی عید تو پھر ٹوٹے گی زنجیرِ قیامت جاناں
بات کیا ہے جو کہیں قبربنائی نہیں جاتی ہے زمیں زادوں کی
آگ سے کھیلتے بچوں کو سلانے کی بھی ملتی نہیں مہلت جاناں
یہ الگ بات کہ اس ایک خدا کے لیے ہر کام کیا جاتا ہے
یہ الگ بات کہ سجدوں سے ادا ہوتی ہے بندوں کی ضرورت جاناں
عاشقِ دید کی امید میں اک عید کی تمہید ہے پوشیدہ مگر
کس کو معلوم کہ ہے وعدۂ معشوق بھی جنت کی سیاست جاناں
موج در موج وہ آکاش ہے سیلانی، وہ طغیانی، وہ حیرانی بہ دوش
جیسے صحرا میں سمندر کی ہو بیساختہ بے واسطہ ہجرت جاناں
رات جیسی ہو چراغوں کو جلا کر یا بجھا کر بھی گزر جاتی ہے
کیا اندھیرے سے لپٹ کر کسی خورشیدؔ کو روتی ہے ندامت جاناں
خورشید اکبر
No comments:
Post a Comment