Monday, 21 August 2023

شہر انکار میں اقرار کے سکے کی کھنکتی رہی لذت جاناں

 شہر انکار میں اقرار کے سکے کی کھنکتی رہی لذت جاناں

رفتہ رفتہ ہوئی کافور وہ ہر بات پہ تکرار کی لذت جاناں

خوب روتا تھا وہ معصوم کبھی مان بھی جاتا تھا کھلونے لے کر

اس کو بہلانا تھا لازم کہ تھی بازار میں ہر رنگ کی راحت جاناں

کیا وہ تہذیب تھی خود دار جو مٹی میں پڑی یوں ہی تڑپتی ہی ملی

کیا بہ صد حسن طلب وقت کی دہلیز پہ بیٹھی ہے قیامت جاناں

میں نے کب جامہ فروشی کے عوض صوفی و صافی کا لقب چاہا تھا

شہرفاقہ میں ہوئی عید تو پھر ٹوٹے گی زنجیرِ قیامت جاناں

بات کیا ہے جو کہیں قبربنائی نہیں جاتی ہے زمیں زادوں کی

آگ سے کھیلتے بچوں کو سلانے کی بھی ملتی نہیں مہلت جاناں

یہ الگ بات کہ اس ایک خدا کے لیے ہر کام کیا جاتا ہے

یہ الگ بات کہ سجدوں سے ادا ہوتی ہے بندوں کی ضرورت جاناں

عاشقِ دید کی امید میں اک عید کی تمہید ہے پوشیدہ مگر

کس کو معلوم کہ ہے وعدۂ معشوق بھی جنت کی سیاست جاناں

موج در موج وہ آکاش ہے سیلانی، وہ طغیانی، وہ حیرانی بہ دوش

جیسے صحرا میں سمندر کی ہو بیساختہ بے واسطہ ہجرت جاناں

رات جیسی ہو چراغوں کو جلا کر یا بجھا کر بھی گزر جاتی ہے

کیا اندھیرے سے لپٹ کر کسی خورشیدؔ کو روتی ہے ندامت جاناں


خورشید اکبر

No comments:

Post a Comment