عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جاں محمدﷺ کے گھرانے پہ لٹائے ہوئے ہیں
ہم درِ پنجتن پہ سر کو جھکائے ہوئے ہیں
نوکِ نیزہ پہ کٹے سر سے پڑھیں ہیں قرآں
کیا حسینؑ ابنِ علیؑ وجد میں آئے ہوئے ہیں
جلنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا
دو ہیں کاندھوں پہ تو دو گود اٹھائے ہوئے ہیں
یہ اگر آپ کی محفل نہیں ہوتی تو حضور
ہم بتاتے کہ کیا گل یہ کھلائے ہوئے ہیں
سجدہ کرتے ہیں جو گوبر سے بھرے جوتوں کو
انگلیاں خاکِ شفاء پر وہ اٹھائے ہوئے ہیں
کربلا کا تو آغاز ہی تھا جنگِ جمل
نسل در نسل سے ہم ان کے ستائے ہوئے ہیں
شوق تھا مسند و منصب کا مگر کیا کہیے
قبضہ بھی باغِ فِدّک پر وہ جمائے ہوئے ہیں
کاٹ تو ڈالا تھا سارا ہی گھرانہ اور اب
نام لیواؤں کی بھی جان کو آئے ہوئے ہیں
ظفر معین بلے
No comments:
Post a Comment