Sunday 20 August 2023

پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک

 پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک

سوکھ جانے پہ بھی خوشبو سے بھرے ہیں اب تک

آتشیں آنکھوں سے حیرت کا دھواں اٹھتا ہے

جڑ توانا ہے، مِرے پات ہرے ہیں اب تک

جھیل سی آنکھوں میں کِھل پایا نہیں کوئی کنول

رونقِ دِید سے ہم لوگ پرے ہیں اب تک

زندگی وہ تیرے مقصد سے ہی واقف نہیں تھے

بہہ کے جو بحرِ تغافل میں مرے ہیں اب تک

ان کو اٹھتا میں سرِ بزمِ جہاں دیکھتا ہوں

تیری دہلیز پہ وہ سر جو دھرے ہیں اب تک

یہ الگ بات اسے میں نے بتایا نہیں ہے

اس کے بارے مِرے جذبات کھرے ہیں اب تک

یہ مِری دھرتی ہے اس دھرتی کا تاریخ سے پوچھ

اس کے بیٹے نہ ڈریں گے، نہ ڈرے ہیں اب تک

اس قدر کوئی نکمّا نہیں ہوتا عادل

ہم بھی جینے کے لیے کچھ تو کرے ہیں اب تک


نوشیروان عادل

No comments:

Post a Comment