جب تک مرے خیال کو وسعت نہیں ملی
تتلی کو رنگ پھولوں کو نکہت نہیں ملی
کیا کرتے اس سے ہاتھ ملا کر بتائیے
دل کیسے ملتا جس سے طبیعت نہیں ملی
خود کو تلاش نے میں کہیں کہو گیے ہیں ہم
ڈھونڈا بھی آئینے میں تو صورت نہیں ملی
یوں تو ہمیں زمانے سے ہر شے ملی میاں
لیکن کبھی بھی حسبِ ضرورت نہیں ملی
تم نے سخن کو بیچ کے اچھا نہیں کیا
شہرت تو مل گئی تمہیں عزت نہیں ملی
معراج تم نے شعر یہ کہہ تو لیے، مگر
ان میں کہیں بھی ندرت و جدت نہیں ملی
معراج نقوی
No comments:
Post a Comment