پھر یوں ہوا کہ ہم بھی گروہوں میں بٹ گئے
یوں ہم رہِ مراد سے خود ہی پلٹ گئے
ایسا نہیں کہ اپنی روش ہی غلط ہوئی
ہم اس غلط روش پہ ڈِھٹائی سے ڈٹ گئے
کھاتے تھے کب غنیم سے اپنے شکست ہم
اپنے تو بُرج، اپنے ہی ہاتھوں اُلٹ گئے
آج ان کے واسطے ہوئے دریا بھی سَدِ راہ
کل جن کے راستے سے سمندر بھی ہٹ گئے
تنہا کہیں بھی ہم نہ گئے راہِ زیست پر
ساتھ اپنے مشکلات کے بھی ٹھٹ کے ٹھٹ گئے
پہلے تو دشمنوں نے ہی چھوڑا ہمارا ساتھ
پھر دوستوں کے رابطے بھی ہم سے کٹ گئے
حاصل ہوا نہ کچھ بھی سفر کے عذاب سے
چہرے ہمارے گردِ مسافت سے اٹ گئے
عادل صدیقی
شبیر صدیقی
No comments:
Post a Comment