تعجب یہ نہیں ہے غم کے ماروں کو نہ چین آیا
تڑپنا دیکھ کر میرا ستاروں کو نہ چین آیا
بڑھی بے تابئ دل جب تو بہنے ہی لگے آنسو
مِرے ہمراہ ان پنہاں ستاروں کو نہ چین آیا
رہے گردش میں ساری رات میری بے قراری پر
بڑے ہمدرد نکلے، چاند تاروں کو نہ چین آیا
ہمارے آشیاں تک بات رہ جاتی تو اچھا تھا
جلا جب تک نہ سب گلشن شراروں کو نہ چین آیا
کوئی بے خود ہوا بے تاب ہو کر رہ گیا کوئی
نقابِ حُسن اٹھنے پر ہزاروں کو نہ چین آیا
زمانے کے تغیر نے کِیا برباد گلشن کو
خزاؤں کو نہ چین آیا،۔ بہاروں کو نہ چین آیا
تھپیڑے ان کو بھی کھانے پڑے امواج طوفاں کے
مِری کشتی کے باعث ہی کناروں کو نہ چین آیا
غمِ دوراں،۔ غمِ جاناں،۔ غمِ عقبیٰ،۔ غمِ دنیا
کنول اس زندگی میں غم کے ماروں کو نہ چین آیا
کنول ڈبائیوی
No comments:
Post a Comment