Saturday, 12 August 2023

تعجب یہ نہیں ہے غم کے ماروں کو نہ چین آیا

 تعجب یہ نہیں ہے غم کے ماروں کو نہ چین آیا

تڑپنا دیکھ کر میرا ستاروں کو نہ چین آیا

بڑھی بے تابئ دل جب تو بہنے ہی لگے آنسو

مِرے ہمراہ ان پنہاں ستاروں کو نہ چین آیا

رہے گردش میں ساری رات میری بے قراری پر

بڑے ہمدرد نکلے، چاند تاروں کو نہ چین آیا

ہمارے آشیاں تک بات رہ جاتی تو اچھا تھا

جلا جب تک نہ سب گلشن شراروں کو نہ چین آیا

کوئی بے خود ہوا بے تاب ہو کر رہ گیا کوئی

نقابِ حُسن اٹھنے پر ہزاروں کو نہ چین آیا

زمانے کے تغیر نے کِیا برباد گلشن کو

خزاؤں کو نہ چین آیا،۔ بہاروں کو نہ چین آیا

تھپیڑے ان کو بھی کھانے پڑے امواج طوفاں کے

مِری کشتی کے باعث ہی کناروں کو نہ چین آیا

غمِ دوراں،۔ غمِ جاناں،۔ غمِ عقبیٰ،۔ غمِ دنیا

کنول اس زندگی میں غم کے ماروں کو نہ چین آیا


کنول ڈبائیوی

No comments:

Post a Comment