طنز کرنا تو ان کی عادت ہے
آج کچھ اور ہی شرارت ہے
غیر سے ہنس کے آپ ملتے ہیں
ایسی بھی ہم سے کیا عداوت ہے
مجھ سے خوابوں میں ملتے رہتے ہیں
مجھ پر ان کی بڑی عنایت ہے
جب بھی فرصت ہو آ کے لے لینا
میرا دل آپ کی امانت ہے
ان کے گھر کا طواف کرتا ہوں
یہ میرے واسطے زیارت ہے
کیا کہوں اپنا حال دل جاناں
حال میرا خود ہی وضاحت ہے
میرے لہجے میں انکساری ہے
میرے پرکھوں کی یہ وراثت ہے
سنگ مرمر میں دل دھڑکتا ہے
تاج کہنے کو ایک عمارت ہے
روتے بچے کو گر ہنساؤ تم
یہ بھی اک طرح کی عبادت ہے
کل تلک جو تھے راہزن مشہور
آج کل ان کی ہی وزارت ہے
تجھ کو ساگر پتہ نہیں شاید
شاعری عشق کی علامت ہے
ساگر اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment