چارہ گر اب میں رہوں گا ترے احسان سے پرے
جا رہا ہوں میں ہر اک درد سے درماں سے پرے
دل کی خواہش ہے کہ آرام سے بیٹھوں لیکن
ہاتھ جاتا ہی نہیں چاکِ گریباں سے پرے
سینۂ چاک میں لایا تھا مسیحائی کو
ڈر کے جا بیٹھے ہو تم دلِ عریاں سے پرے
اس قدر بڑھنے لگی ہے دلِ سوزاں کی تپش
لوگ اب رہنے لگے کلبۂ احزاں سے پرے
قہقہے آج تِرے رکتے نہیں کیوں عادل
تُو نے کیا دیکھ لیا دیدۂ گریباں سے پرے
شہزاد عادل
No comments:
Post a Comment