ہوئے جو بند کچھ رستے، کئی بہتر نکل آئے
عدو نے ہاتھ کاٹے تو ہمارے پر نکل آئے
نظر آتی کہاں تھیں دوستو خود گردنیں کل تک
یہاں جن گردنوں پہ اب کشیدہ سر نکل آئے
ارے تُو تو مِری آواز پر نکلا نہیں باہر
ہزاروں لوگ میری خامشی سن کر نکل آئے
ہمیں ہر جوہری نے اپنے اپنے ظرف سے پرکھا
کہیں یاقوت نکلے تو کہیں پتھر نکل آئے
وہاں پر اپنے ہونے کی ہمیں خود بھی خبر کب تھی
جہاں سے آپ کے آواز دینے پر نکل آئے
تخیل کا فلک سے پھوڑنا سر رائیگاں کب تھا
سخن کے دوسری دنیا میں بھی یوں در نکل آئے
رسائی خود تلک دی جس طرح عزمی زمانے کو
مِرا دشمن بھی ممکن ہے مِرے اندر نکل آئے
عزم الحسنین عزمی
No comments:
Post a Comment