کیا سے کیا ہو گئی اس دور میں حالت گھر کی
دشت پُر نُور ہوئے بڑھ گئی ظُلمت گھر کی
سب کی دہلیزوں پہ جلتے ہیں تعصب کے چراغ
کیا کرے گا کوئی ایسے میں حفاظت گھر کی
خامشی، فرض، روایات، عنایت، ایثار
انہیں بنیادوں پہ موقوف ہے عظمت گھر کی
جن کے حصے میں کوئی سایۂ دیوار نہیں
وہ بھی انساں ہیں انہیں بھی ہے ضرورت گھر کی
لاکھ قسمت میں غریب الوطنی ہو رہبر
کھینچ لاتی ہے مگر پھر بھی محبت گھر کی
رہبر جونپوری
No comments:
Post a Comment