غرورِ کوہ کے ہوتے نیازِ کاہ رکھتے ہیں
تِرے ہمراہ رہنے کو قدم کوتاہ رکھتے ہیں
اندھیروں میں بھی گُم ہوتی نہیں سمتِ سفر اپنی
نگاہوں میں فروزاں اک شبیہِ ماہ رکھتے ہیں
یہ دُنیا کیا ہمیں اپنی ڈگر پر لے کے جائے گی
ہم اپنے ساتھ بھی مرضی کی رسم و راہ رکھتے ہیں
وہ دیوارِ انا کی اوٹ کس کس آگ جلتا ہے
دل و دیدہ کو سب احوال سے آگاہ رکھتے ہیں
در و بستِ جہاں میں دیکھتے ہیں سُقم کچھ عالی
اور اپنی سوچ کا اک نقشۂ اصلاح رکھتے ہیں
جلیل عالی
No comments:
Post a Comment