زمین ہجر میں گردن تلک گڑا ہوا ہوں
میں تجھ کو ہار کے اب سوچ میں پڑا ہوا ہوں
ہر ایک سمت ہے شورش، بلا کی وحشت ہے
میں دشت زاد ہوں اور شہر میں کھڑا ہوا ہوں
یہ عشق موت کے اسباب پیدا کرتا ہے
میں تیس سال سے اِس بات پر اڑا ہوا ہوں
کِیا تھا آپ نے ثروت کا ذکرِ خیر جہاں
میں احترام میں اب تک وہیں کھڑا ہوا ہوں
خدا کرے کہ تجھے بندگی پسند آئے
میں خاک ہو کے تری راہ میں پڑا ہوا ہوں
میں قہقہوں کے قبیلے کا آدمی تھا مگر
عجیب ہے کہ گلے دشت کے پڑا ہوا ہوں
بتا رہے تھے یہ فیصل امامِ عشق مجھے
میں انتظارِ مسلسل سے چڑچڑا ہوا ہوں
فیصل ندیم
No comments:
Post a Comment