عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں
اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں
زندگی ہے مِری ٹھہرا ہوا پانی جیسے
ایک کنکر سے بھی ہو جاتی ہے ہلچل مجھ میں
میں بظاہر تو ہوں اک ذرہ زمیں پر، لیکن
اپنے ہونے کا ہے احساس مکمل مجھ میں
آج بھی ہے تِری آنکھوں میں تپش صحرا کی
کروٹیں لیتا ہے اب بھی کوئی بادل مجھ میں
جو اندھیروں میں مِرے ساتھ چلا بچپن سے
اب وہ تارا بھی کہیں ہو گیا اوجھل مجھ میں
خواہشیں آ کے لپٹ جاتی ہیں سانپوں کی طرح
جب مہکتا ہے تِری یاد کا صندل مجھ میں
اب وہ آیا تو بھٹک جائے گا رستہ نصرت
اب گھنا ہو گیا تنہائی کا جنگل مجھ میں
نصرت مہدی
No comments:
Post a Comment