Thursday 10 August 2023

ٹوٹے حوصلے سے بڑھ گیا ہے بیمار کا بوجھ

 ٹوٹے حوصلے سے بڑھ گیا ہے بیمار کا بوجھ

میری آرزو کی ندامت تیرے انکار کا بوجھ

کون اٹھاتا ہے روندی ہوئی کلیوں کے لاڈ

بنیاد خود نہیں اٹھاتی گِرتی دیوار کا بوجھ

تیرے چہرے پر دیکھا تو قیمت پتا چلی

ہم سمجھتے تھے تِل کو رخسار کا بوجھ

آپ کی بے وفائی سے اتنا تو بھلا ہوا میرا

کھل کے روئے ہیں اتار کر اعتبار کا بوجھ

ناحق ہم کرتے گِلہ اس سے آنے نہ آنے کا

دار پر کون اٹھاتا ہے بھلا تیمار کا بوجھ

ہنس پڑی اتنا کہ کر ڈوبتی ہوئی کشتی

برابر ہے مجھے مسافر اور پتوار کا بوجھ

کوئی تھل تو کوئی چناب کی نذر ہوتا ہے

عشق جب اتار کر پھینکے سوار کا بوجھ


آفتاب چکوالی

آفتاب احمد خان

No comments:

Post a Comment