ٹوٹے حوصلے سے بڑھ گیا ہے بیمار کا بوجھ
میری آرزو کی ندامت تیرے انکار کا بوجھ
کون اٹھاتا ہے روندی ہوئی کلیوں کے لاڈ
بنیاد خود نہیں اٹھاتی گِرتی دیوار کا بوجھ
تیرے چہرے پر دیکھا تو قیمت پتا چلی
ہم سمجھتے تھے تِل کو رخسار کا بوجھ
آپ کی بے وفائی سے اتنا تو بھلا ہوا میرا
کھل کے روئے ہیں اتار کر اعتبار کا بوجھ
ناحق ہم کرتے گِلہ اس سے آنے نہ آنے کا
دار پر کون اٹھاتا ہے بھلا تیمار کا بوجھ
ہنس پڑی اتنا کہ کر ڈوبتی ہوئی کشتی
برابر ہے مجھے مسافر اور پتوار کا بوجھ
کوئی تھل تو کوئی چناب کی نذر ہوتا ہے
عشق جب اتار کر پھینکے سوار کا بوجھ
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment