آرزو، حسرت، تمنا، مدعا کوئی نہیں
جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں
ہے وفائی کا مجھے تجھ سے گلہ کوئی نہیں
پیار تو میں نے کیا، تیری خطا کوئی نہیں
چاہنے والا ہوں تیرا جب کبھی میں نے کہا
کہہ دیا اس بے وفا نے تُو مِرا کوئی نہیں
میں نے جب سے دل لگایا وہ نہ میرا ہو سکا
اس سے بڑھ کر دل لگانے کی سزا کوئی نہیں
خوب ہے وہ زندگی جو ساتھ گزرے یار کے
یار بِن اُلفت میں جینے کا مزہ کوئی نہیں
روح کی تسکین کا چارہ نہیں ہے موت بھی
درد ایسا ہے مِرا جس کی دوا کوئی نہیں
اجنبی ہوں میں شناساؤں میں بھی رہتے ہوئے
جانتا کوئی نہیں،۔ پہچانتا کوئی نہیں
کام کچھ تیرے بھی ہوتے تیری مرضی کے خلاف
ہاں مگر میرے خدا تیرا خدا کوئی نہیں
بڑھ کے طوفاں میں سہارا موج طوفاں کیوں نہ دے
میری کشتی کا خدا ہے، نا خدا کوئی نہیں
جستجو کامل ہے تو منزل کا ملنا شرط ہے
جستجو سے بڑھ کے پُرنم رہنما کوئی نہیں
پرنم الہ آبادی
No comments:
Post a Comment