Saturday 7 December 2013

اے مظلومو اے محکومو

وصایا: فیض

اے مظلومو، اے محکومو، اے نادارو، اے ناچارو
اِک راز سنو، آواز سنو، ہوتا ہے کہاں آغاز سنو
خاموش لبوں کی جُنبش سے
دُنیا کے خُدا سب ڈرتے ہیں
سجدوں میں پڑے سر اُٹھ جائیں
مسنَد پہ جمے رَب ڈرتے ہیں
پابندِ سلاسل رُوحیں جب
بیزارِ جفا ہو جائیں گی
مَقتل سے صدائیں آئیں گی
لبیک کہیں گے دِیوانے
اِک حشر کھڑا ہو جائے گا
مجرُوح گُلوں کی چیخوں سے
گُلچیں کا کلیجا تڑپے گا
ہر مَنصب جھوٹا لرزے گا
سفّاک خُدا گِر جائیں گے
ہر جاں جو فروزاں ہو جائے
ظُلمت نہ مِٹے، وہ رات نہیں
زنجیر و سلاسل، زنّاری
یہ نسلوں کی سوغات نہیں
آغاز تمہی سے ہونا ہے
غم سہنے والو چُپ کب تک؟

ابن منیب
نوید رزاق بٹ

No comments:

Post a Comment