Saturday, 7 December 2013

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہو گئے
روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment