Sunday 8 December 2013

ہمارے دل میں کہیں درد ہے نہیں ہے نا

ہمارے دل میں کہیں درد ہے، نہیں ہے نا
ہمارا چہرہ بھلا زرد ہے، نہیں ہے نا
سنا ہے آدمی مر سکتا ہے بچھڑتے ہوئے
ہمارا ہاتھ چھوؤ، سرد ہے، نہیں ہے نا
سنا ہے ہجر میں چہروں پہ دھول اڑتی ہے
ہمارے رخ پہ کہیں گرد ہے، نہیں ہے نا
کوئی دلوں کےمعالج، کوئی محمد بخش
تمام شہر میں کوئی مرد ہے، نہیں ہے نا
وہی ہے درد کا درماں بھی افتخار مغل
کہیں قریب وہ بے درد ہے، نہیں ہے نا

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment