مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
تِرا ہاتھ، ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جُھکا سکے
اُڑی زُلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کہہ سکے، مِرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی آستاں ہے، وہی جبیں، وہی اشک ہے، وہی آستیں
دلِ راز تُو بھی بدل کہیں، کہ جہاں کے طور بدل گئے
تجھے چشمِ مست پتہ بھی ہے کہ شبابِ گرمئ بزم ہے
تجھے چشمِ مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پِگھل گئے
مِرے کام آ گئیں آخرِش، یہی کاوِشیں، یہی گردِشیں
بڑھیں اس قدر میری منزلیں کہ قدم کے خار نِکل گئے
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment