Tuesday, 6 October 2015

وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا

وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
جواب خط نہیں آیا تو یہ سمجھو ”جواب“ آیا
قریبِ صبح یہ کہہ کر اجل نے آنکھ جھپکا دی
ارے او ہجر کے مارے! تجھے اب تک نہ خواب آیا
دل اس آواز کے صدقے یہ مشکل میں کہا کس نے
نہ گھبرانا، نہ گھبرانا، میں آیا اور شتاب آیا
پرانے عہد ٹوٹے، ہو گئے پیماں نئے قائم
بنا دی اس نے دنیا دوسری، جو انقلاب آیا
گزرگاہِ محبت بن گئی اک مستقل بستی
لگا کر آگ آیا گھر کو جو خانہ خراب آیا
معمہ بن گیا رازِ محبت آرزوؔ یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجکے، مجھے کہتے حجاب آیا

آرزو لکھنوی

No comments:

Post a Comment