Tuesday, 6 October 2015

کچھ اب کے بہاروں کا بھی انداز نیا ہے

کچھ اب کے بہاروں کا بھی انداز نیا ہے
ہر شاخ پہ غُنچے کی جگہ زخم کھِلا ہے
دو گھونٹ پلا دے مجھے مے ہو کہ ہلاہل
وہ تشنہ لبی ہے کہ بدن ٹوٹ رہا ہے
اس رِندِ سیہ مست کا انجام نہ پوچھو
تشنہ ہو تو مخلوق ہے، پی لے تو خدا ہے
کس بام سے آتی ہے تِری زلف کی خوشبو
دل یادوں کے زینے پہ کھڑا سوچ رہا ہے
کل اس کو تراشو گے تو پوجے گا زمانہ
پتھر کی طرح آج جو راہوں میں پڑا ہے
دیوانوں کو سودائے طلب ہی نہیں، ورنہ
ہر سینے کی دھڑکن کسی منزل کی صدا ہے

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment