Tuesday, 6 October 2015

مسیح وقت سہی ہم کو اس سے کیا لینا

مسیحِ وقت سہی ہم کو اس سے کیا لینا
کبھی ملے بھی تو کچھ دردِ دل بڑھا لینا
ہزار ترکِ وفا کا خیال ہو، لیکن
جو روبرو ہو تو بڑھ کر گلے لگا لینا
کسی کو چوٹ لگے اپنے دل کو خوں کرنا
زمانے بھر کے غموں کو گلے لگا لینا
خمار ٹوٹے تو کیسے کہ ہم نے سیکھ لیا
جو تُو نہ ہو تو تِری یاد سے نشہ لینا
سفینہ ڈوب بھی جائے تو غم نہیں فارغؔ
نہ بھُول کر کبھی احسانِ ناخدا لینا

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment