مسیحِ وقت سہی ہم کو اس سے کیا لینا
کبھی ملے بھی تو کچھ دردِ دل بڑھا لینا
ہزار ترکِ وفا کا خیال ہو، لیکن
جو روبرو ہو تو بڑھ کر گلے لگا لینا
کسی کو چوٹ لگے اپنے دل کو خوں کرنا
خمار ٹوٹے تو کیسے کہ ہم نے سیکھ لیا
جو تُو نہ ہو تو تِری یاد سے نشہ لینا
سفینہ ڈوب بھی جائے تو غم نہیں فارغؔ
نہ بھُول کر کبھی احسانِ ناخدا لینا
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment