Wednesday, 7 October 2015

اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی

اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی
ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا
سرد رُت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی
موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب
پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی
ذکرِ قحطِ رنگ سے پہلے پہ تالے پڑ گئے
ہر لبِ تصویر کو جنبش بڑی مہنگی پڑی
خارِ قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے
ناخنِ تدبیر کی کاوش بہت مہنگی پڑی
اس عمل نے تو کہیں کا بھی نہ رکھا دوستو
خود کو چاہے جانے کی خواہش بہت مہنگی پڑی
تند خُو موجوں نے ساجدؔ چاند ساحل کھا لیے
بحرِ شب میں امن کی کوشش بہت مہنگی پڑی

اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment