Wednesday, 7 October 2015

تم غیروں سے ہنس ہنس کے ملاقات کرو ہو

تم غیروں سے ہنس ہنس کے ملاقات کرو ہو
اور ہم سے وہی زہر بھری بات کرو ہو
بچ بچ کے گزر جاؤ ہو تم پاس سے میرے
تم تو بخدا غیروں کو بھی مات کرو ہو
نشتر سا اتر جاوے ہے سینے میں ہمارے
جب ماتھے پہ بَل ڈال کے تم بات کرو ہو
تقوے بھی بہک جاویں ہیں محفل میں تمہاری
تم اپنی ان آنکھوں سے کرامات کرو ہو
پھولوں کی مہک آوے ہے سانسوں میں تمہاری
موتی سے بکھر جاویں ہیں جب بات کرو ہو
ہم غیروں کے آگے تمہیں کیا حال بتائیں
پاس آ کے سنو، دور سے کیا بات کرو ہو
کیا کہہ کے پکاریں گے تمہیں لوگ یہ سوچو
اقبالؔ پہ تم ظلم تو دن رات کرو ہو

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment