Saturday, 3 October 2015

اسی کوچے میں سحر ایک حسیں دیکھ آیا

اسی کوچے میں سحرؔ ایک حسیں دیکھ آیا
سوچتا ہوں کہیں ”اس کو“ تو نہیں دیکھ آیا
یہ جو دیکھ آتے ہیں پھولوں میں ستاروں میں اسے
کوئی ”رخسار“ کوئی اس کی ”جبیں“ دیکھ آیا
شوخئ رنگِ رخِ یار سے مسحور تھی بزم
میں غلط بینئ اربابِ یقیں دیکھ آیا
رہِ الفت میں تبسم ہے فریبِ منزل
وہی اچھا ہے جو اسے ”چیں بہ چیں“ دیکھ آیا
کل جہاں دیکھ کے آیا تھا دمِ سیرِ چمن
آج پھر اس بتِ کافر کو وہیں دیکھ آیا
یہ ”صباحت“ پہ کوئی چوٹ نہیں ہے اے دوست
میں کسی در پہ جو ”حسنِ نمکیں“ دیکھ آیا
زاہدِ خشک کی باتوں میں لچک ملتی ہے
غالباً آج کوئی ”بام نشیں“ دیکھ آیا
تیرے بس کے نہیں یہ رمزِ عبادت اے شادؔ
تُو تو مے خانہ میں اک ”قبلۂ دیں“ دیکھ آیا

شاد عارفی

٭سحرؔ رامپوری

No comments:

Post a Comment